زندگی پرسکون کیجیے




میرا خیال ہے کہ ہم اپنی الماری سے وہ تمام کپڑے نکال کر کسی غریب آدمی کو دے سکتے ہیں جو ہم نے یہ سوچ کر جمع کیے ہوئے ہیں کہ وزن کم ہو گا تو ضرور پہنیں گے۔ پچھلے پانچ سال میں کم ہوا کوئی کلو دو کلو؟ نہیں ہوا، تو کسی کو دے کیوں نہیں دیتے؟

وہ کتابیں جو نہ کبھی پڑھیں اور نہ کبھی اگلے تیس سال میں پڑھی جانی ہیں، وہ آخر کیوں سنبھالی ہوئی ہیں؟ جو پسند ہیں ان کی بات الگ، لیکن باقی کتابیں اگر کم کر لی جائیں تو کیا کمرے میں کھلے پن کا احساس تھوڑا زیادہ نہیں ہو جائے گا، اگلی شفٹنگ آسان نہیں ہو گی؟
کچن میں وہ مصالحے جو شاپروں میں پڑے پڑے گل گئے، ڈیپ فریزر کی وہ تھیلیاں جو چھ مہینے سے کھلی تک نہیں، شوکیس کے وہ برتن جو تین نسلوں سے جمے ہوئے ہیں، کیا ان سے نجات نہیں حاصل کی جا سکتی؟ ان گنت چمچوں اور کانٹوں کی جگہ اگر مختصر کٹلری ہو تو کیا اسے سنبھالنا آسان نہیں ہو گا؟

باتھ روم میں جو بوتلیں کام کی نہیں ہیں انہیں پھینکیں، جو فالتو بالٹیاں ہیں ان سے جان چھڑائیں، ربڑ کا پائپ جو باہر اکڑا ہوا پڑا ہے، اگر کام نہیں آتا تو اسے مردہ سانپ کی طرح پالنے کا فائدہ نہیں، وہ جو نیا لیا ہے اسے استعمال بھی کریں۔ گاڑی پہ کپڑا نہیں چڑھانا تو اسے ڈکی سے نکال کے باہر پھینکیں، مان لیا کہ شوق سے لیا تھا پیسے خرچے تھے لیکن یہ بھی مان لیں کہ روز روز اب یہ کھیچل برداشت نہیں ہوتی اور ڈکی بھی گندی بھری ہوئی لگتی ہے۔
 موبائل سے فالتو کی ڈاؤن لوڈ ہوئی واٹس ایپ ویڈیوز نکالیں، انرجی سیور ایک بار ختم ہو گیا تو اس کا کچھ نہیں ہو سکا، اب تو پتنگ تک نہیں اڑ سکتی کہ ڈور کے مانجھے میں اس کا شیشہ کام آ جائے، پھینک دیں ان سب کو خدا کے واسطے۔ پرفیوم کی خالی بوتلوں سے جان چھڑائیں ۔۔۔ یہ سب پتہ ہے کیوں ضروری ہے؟

ہمارے دماغوں پہ دو چیزوں کا پریشر ہے۔ ایک ٹیکنالوجی کا اور دوسرے اپنے ہی سامان کا۔ ہم یا اپنے گھر میں رہتے ہیں اور یا اپنے موبائل میں رہتے ہیں۔ دونوں چیزیں ہی فل بھری ہوئی ملتی ہیں ہمیشہ، ہم کہاں رہیں گے؟ نتیجہ یہ ہو گا کہ زندگی آہستہ آہستہ کاٹھ کباڑ میں دب جائے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ کسی چیز کا مزہ نہیں لے سکیں گے آپ۔ پیسہ بڑا ہے پر سکون نئیں اے جی۔ یہ ایک پرانا ڈائیلاگ ہوتا تھا۔ تو اس بے سکونی کی ایک بہت زیادہ بڑی وجہ بے ترتیب زندگی اور چیزوں کا پھیلے ہونا ہے۔
دیکھیں ہمارے دماغ تو وہی ہیں جو دو تین سو برس پہلے ہمارے پردادوں یا ان کے نانوں دادوں کے تھے لیکن اب ان پر بوجھ کتنا بڑھ گیا ہے یہ سوچیں۔ ان کی زندگی میں فریج، ٹی وی، اے سی، فالتو برتن، گاڑی، واشنگ مشین، ریڈیو، گیزر، لائٹیں، پنکھے، بلب، گھڑیاں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ نہ انہیں یہ سب خریدنا پڑتا تھا نہ مرمت کروانی ہوتی تھی اور نہ پرانا ہونے کی صورت میں یہ سب ان کے سٹور میں ڈھیر ہونا ہوتا تھا۔ اسی طرح نہ موبائل نہ کمپیوٹر، کچھ بھی ان کے پاس نہیں تھا، اندازہ کریں کہ ان کا دماغ کیسے ہلکا پھلکا اور آزاد ہوتا ہو گا۔

ہمارے پاس یہ سب کچھ ہے تو، لیکن اسے مینٹین کرنے کا پریشر بھی اسی حساب سے ہے۔ اب دماغ تو ہمارا سائز میں اتنا ہی ہے جتنا دادوں پردادوں کا تھا لیکن ڈیٹا بہت زیادہ ہے، یاد رکھنے کا بہت کچھ ہے، تو جب یہ سب ہو گا تو ڈپریشن، بے آرامی، نیند کی کمی اور بے چینی، کیا یہ سب نہیں ہو گا؟ یہ تو ہو گا! جب ملکیتی چیزیں بڑھتی جائیں گی تو یہ سب بھی بڑھتا جائے گا۔

اسے کم کرنے کی پہلی صورت یہ ہے کہ فالتو چیزوں سے جان چھڑا لی جائے۔ جتنی زیادہ چیزیں آپ کی ملکیت میں ہوں گی اتنا ان کا خیال رکھنا پڑے گا۔ اب وہ چاہے ڈیجیٹل ڈیٹا ہو یا اصل زندگی کا سامان، کھلارا جتنا بڑھتا جائے گا، سمیٹنا اتنا مشکل ہو گا۔

Comments

Popular posts from this blog

RAZIA SULTAN (The First Women Ruler of India)

The Karakoram Range

Who is Firon? How did he die?